مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

سوال و جواب » نماز ۔ احکام مسافر

۱ سوال: ایک شخص اپنے وطن سے چند ماہ کے سفر پر نکلتا ہے اور اس دوران کئی ایک مقامات پر منتقل ہوتا ہے ،البتہ وہ یہ بات جانتا ہے کہ ان مقامات میں سے بعض جگہوں پر اسکی نماز تمام ہوگی چونکہ وہ ان جگہوں میں دس دن اقامت کا قصد رکہتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ آیا وہ اپنے اس پورے سفر میں کثیر السفر کہلائے گا؟ یا (ہردوسال میں تین ماہ ۔ یا ایک ہی سال میں چھہ ماہ حالت سفر میں ہونے کی) شرط سے پہلے اس پر کثیر السفر کا عنوان صدق نہیں آئے گا کیونکہ وہ مختلف جگہوں پردس۔دس دن کی اقامت کا قصد رکھتا ہے؟
جواب: جس شھر میں بھی دس دن کا قصد کریں نماز تمام ہے وگرنہ قصر ہے۔
sistani.org/25028
۲ سوال: کیا سفر میں دن کی نوافل ساقط ہوجاتی ہیں ؟
جواب: حالت سفر میں دن کی نوافل تو ساقط ہیں اور وتیرہ (نافلہ العشاء) کے ساقط ہونے میں اشکال ہے جبکہ (اظھر) یہ ہے کہ وہ بھی ساقط ہوجاتی ہے۔البتہ اسکو رجاءِ مطلوبیت کی نیت سے بجا لانے میں کوئی حرج نہیں۔
sistani.org/25029
۳ سوال: اگر کوئی شخص سفر میں مسئلہ نہ جاننے کی بنا پر یا غلطی سے نماز پوری پڑھ لے یا بر عکس تو اسکی نماز کا کیا حکم ہے؟
جواب: اماکن اربعہ (چار مخصوص مقامات) کے علاوہ حالت سفر میں چار رکعتی نمازوں کو قصر پڑھنا واجب ہے،اس طرح سے کہ انکی پہلی دو رکعتوں پر اکتفاء کیا جائے،لیکن اگرکوئی حالتِ سفر میں تمام ادا کرلے تو اگر وہ مسئلے کو جانتا تھا تو نماز باطل ہوگی اوراعادہ یا قضا کرنا واجب ہے۔
اگر مسئلے سے بالکل ہی جاہل تھا اس طرح کہ وہ مسافر کے لیے حکم قصر اور اسکی مشروعیت کو بھی نہ جانتا ہو تو نہ اعادہ ہے اور نہ ہی قضا واجب ہے،
البتہ اگر اصل حکم کو جانتا تھا مگر بعض خصوصیات سے جاہل تھا کہ جن کی وجہ سے نماز قصر ہوتی ہے،مثلا( جیسا کہ کسی شھر میں دس دن اقامت کرے تو مسافر کا حکم نھیں رکھتا،یا جیسا کہ سفر معصیت میں اگر مسافر اطاعت گزار ہوجا‎ۓ تو اسکی نماز سفر میں قصر ہوجاتی ہے،یا اسی طرح کے دوسرے امور)۔ تو اگر وہ ان باتوں کو نماز کا وقت ہوتے ہوۓ ہی جان لے تو (احوط) یہ ہے کہ نماز کا اعادہ کرے، اور وقت کے بعد معلوم ہوتو بعید نہیں کہ قضاء واجب نہ ہو!
اگر ایسا انسان موضوع قصر(مسافت شرعیہ)سے جاہل ہو یعنی نہ جانتا ہو کہ جو فاصلہ اسکا مقصود ہے وہ مسافت شرعی ہے یا نہیں اس صورت میں تمام نماز پڑھے اور پھر پتہ چلے کہ یہ فاصلہ تو موجب قصر تھا،،یا اگر وہ خود مسافر ہونے ہی کو بھول گیا تھا یا یہ بھول گیا ہو کہ مسافر کا حکم قصر ہوتا ہے اور اسی خیال میں نمازتمام پڑھ لے، تو اگر اسکو وقت میں ہی معلوم ہوجاۓ یا یاد آجائے تو اعادہ کرنا ہوگا۔
لیکن اگر وقت نماز ختم ہونے کے بعد معلوم ہو یا اسے یاد آجاے تو (ظاہر) یہ ہے کہ اس پر قضا واجب نہیں ہے۔
جن امور کو ذکر کیا گیا ہے ان میں روزے کا حکم نماز ہی کی طرح ہے لہذا حالت سفر میں جان بوجھ کر سفر میں روزہ رکہنا باطل ہے،اور نہ جاننے کی صورت میں صحیح ہے،چاھے اصل حکم سے جاہل ہو یا خصوصیات حکم سے جاہل ہو یا موضوع سفر سے جاہل ہو۔
جس شخص کی ذمہ داری تمام ہو اگر وہ قصر کر لے تو بہر صورت و بغیر کسی فرق کے نماز باطل ہو جاۓگی، چاہے وہ عمدا ایسا کرے یا جاہل ہو یا نسیان یا خطا کی وجہ سے ایسا کرے۔ ہاں البتہ دس دن کی اقامت رکھنے والا مسافر اگریہ بات نہ جانتے ہوے کہ اسکی نماز تمام ہوگی قصر پڑھے اور پھر اسکو مسئلے کا علم ہو تو(احتیاط واجب) کی بنا پر اعادہ کرنا ہوگا۔
جس وقت نماز کا وقت داخل ہو اورانسان حاضر ہو (یعنی سفر میں نہ ہو) اور نماز اداء کرنے سے پہلے ہی سفر پر نکل جائے حتی کے حد ترخص سے خارج ہوجائے اور ابھی نماز کا وقت باقی ہو تو اب اسکو موجودہ حالت کے لحاظ سے قصر نماز پڑھنی ہوگی۔ جیسا کہ اگر اسنے سفر میں نماز نہ پڑھی ہو اور وقت ختم ہونے سے پہلے گھر پہنچ جائے تو اب اسے تمام نماز ادا کرنی ہوگی۔غرض یہ کہ مدار زمان ادایگی نماز ہے نہ کے وقت وجوب نماز۔
اگر حالت حضر (غیر سفر) میں نماز فوت ہوجائے تو اسکی قضا تمام ہی ہوگی چاہے قضا کی انجام دہی کے وقت وہ سفر میں ہو،اسی طرح اگر حالت سفر میں نماز فوت ہوئی ہو تو اسکی قضا قصر ہی ہوگی چاہے اسے وطن میں ہی ادا کرے، البتہ اگر اول وقت نماز میں تو حاضر ہو مگر آخر وقت میں مسافر ہو جائے یا اس کے بر عکس ہو تو قضاء کے مسئلے میں حالت فوت کو دیکھا جائے گا،یعنی نماز پڑھتے وقت کو دیکھا جائے گا۔غرض یہ کہ پہلی صورت میں اسکا حکم قصر ہوگا جبکہ دوسری صورت میں تمام پڑھے گا۔
مسافر کو چار جگہوں میں قصر و تمام کے دوران اختیار حاصل ہے: (۱۔مکہ معظمہ، ۲۔مدینہ منورہ،۳۔کوفہ مقدسہ اور ۴۔حرم امام حسینع) پس وہ مسافر جس کو قصر پڑھنی ہو وہ ان چار جگہوں میں قصر کے بجائے تمام پڑھ سکتا ہے بلکہ تمام پڑھنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے اگرچہ قصر ہی پڑھنا احتیاط سے قریب تر ہے۔
علما نے حکم تخییر کو تین ۳ جگہوں(مکہ،مدینہ،کوفہ) میں ان کی مسجدوں ہی سے مخصوص کیا ہے،جبکہ بعید نہیں کہ ان ۳ شہروں میں یہ حکم مطلقا (یعنی خارج مسجد پورے شہر) میں ثابت ہو،حالآنکہ مسجدوں تک ہی مخصوص رکھنا احوط ہے۔ البتہ حرم امام حسین ع میں قصر و تمام کے مسئلے میں (ظاہرا) یہ حکم قبر مطھر کے احاطے میں ہر طرف سے ۲۵ ذراع (ہاتھ) کی مقدار تک ہی ہے کہ جس میں رواق کا بعض حصہ بھی شامل ہوگا جبکہ پچہلی طرف سے مسجد کا بعض حصہ خارج ہوجائے گا۔
ان اماکن اربعہ میں حکم تخییر کا ثابت ہونا کوئی فرق نہیں رکہتا چاہے انکی زمین پر ہو یا اوپر کی منزلوں پر ہو یا زیر زمین منزل میں ہو جیسا کہ مسجد کوفہ میں بیت طشت (زیر زمین ہوا کرتا تھا)۔
مذکورہ حکم تخییرمیں روزہ، نماز سے ملحق نہیں ہوگا پس مسافر جسکا حکم قصر ہے وہ ان چار جگہوں میں بھی روزہ نہیں رکھ سکتا اور حکمِ تخییر استمراری ہے یعنی اگر نماز کو قصر کی نیت سے شروع کردے تب بھی دوران نماز تمام کی طرف نیت بدلنے کا اختیار باقی رہتا ہے اور اسی طرح اسکے برعکس بھی۔
حکمِ تخییر چار مخصوص مقامات کے سوا باقی ہر جگہ جاری نہیں ہوتا۔
مسافر کے لیے مستحب ہے کہ وہ ہر نماز قصر کے بعد ۳۰ بار(سبحان اللہ والحمد للہ ولا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر) پڑھے۔
حکم تخییر نمازِ اداء کے لیے مخصوص ہے، قضا نمازوں میں یہ حکم جاری نہیں ہے۔
sistani.org/25244
نیا سوال بھیجنے کے لیے یہاں کلیک کریں
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français