مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

بسم الله الرحمن الرحيم
آیت اللہ سیستانی کی رائےکے مطابق ہندوستان میں بدھ (10-4-2024) ماہ شوال کی پہلی اور عید سعید فطر ہے۔

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل

(۱۸) پوسٹ مارٹم کے احکام ← → (۱۶) سرقفلی (پگڑی)

(۱۷) قانون اقرار اور قرض وصولنے کے رائج طریقہ سے متعلق مسائل

کچھ ایسے مسائل جو عقود، ایقاعات اور حقوق میں اختلافی ہیں ، اور اس سلسلے میں شیعہ علماء کا دیگر اسلامی مذاہب کے علماء کے نظریات سے کہیں پر جزئی اور کہیں پر مکمل اختلاف پایا جاتاہے اس لئے شیعوں کے طرز عمل کے بارے میں غیر شیعوں کے مقابل میں سوال کیاجاتاہے اور متاخرین فقھاء (رضوان اللہ علیہم) ان مسائل کے احکام کو قانون الزام کی بنیاد پر یعنی غیر شیعہ کو ان کے مذہب کے قانون کے مطابق پابند بنانا، احکام استنباط کرتے ہیں اور جواب دیتے ہیں ، لیکن ہمارے نظریہ کے لحاظ سے یہ قانون ثابت نہیں ہے اب ضروری ہوجاتا ہے کہ ان مسائل کو قانون الزام کےجگہ پر آنے والے دوسرے قانون کے مطابق جیسے ایک خاص قسم کا قانون مقاصہ (ان کے طور طریقہ اور قانون کے مطابق جس طرح آپ سے لیتے ہیں آپ ان سے لے لیجئے) یا قانون اقرار( غیر شیعہ کے ساتھ ان کے مذہب کے قانون کے مطابق پیش آنا اور ان کا پابند کرنا) کے مطابق کرنا اور اس کے حکم کو بیان کرنا۔

مسئلہ (۲۸۴۲)شیعہ امامی فقہ کے اعتبار سے عقد نکاح بغیر گواہ کے صحیح ہے لیکن اہل سنت کا نظریہ اس سلسلہ میں مختلف ہے او ران میں سے کچھ شیعہ امامی فقہ کے حامی ہیں اور ان میں سے بعض جیسے حنفی، شافعی، حنبلی بغیر گواہ کے نکاح کو باطل قرار دیتے ہیں ،مالکی بھی مخفیانہ ورازدارانہ نکاح کو باطل قرار دیتے ہیں لیکن جو لوگ عقد کے باطل ہونے کا نظریہ رکھتے ہیں وہ بھی دو گروہ میں بٹے ہوئےہیں ۔

مالکی اورزیادہ ترحنبلی اس طرح عقد نکاح کے بارے میں جو صحیح اور اس کے باطل ہونے کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں جیسے مذکور عقد ان کا نظریہ ہےکہ ایسی عورت سے شادی کرنےکا کوئی شخص حق نہیں رکھتا مگر اس صورت میں کہ وہ مرد جس کے نام سے عقد ہوا ہے اس کو طلاق دے یا اس کے نکاح کو فسخ کرے، پس اگر شوہر ان دونوں مذہب کا پیرو ہوتو و ہ اس عورت سے شادی نہیں کرسکتا ہے سوائے اس صورت میں کہ اس کو طلاق دے یا اس کے نکاح کو فسخ کرے۔

شافعی اورحنفی حضرات کا اس قسم کے نکاح کے بارے میں نظریہ یہ ہےکہ اس طرح کی عورت سے شادی کرسکتے ہیں اور طلاق دینے یا نکاح کو فسخ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس بناء پر اگر شوہر ان دومذہب کے ماننے والوں میں سے ہو تو قاعدۂ الزام کے مطابق شوہر اپنے مذہب کے احکام میں ، اس صورت میں کہ عورت ان کی نظر میں ایسے افراد میں سے ہوجس کو عدت کی ضرورت ہے تواظہر یہ ہے کہ عدت ختم ہونے کے بعد اس سے نکاح کرنا جائز ہے۔

اسی طرح اگر عورت شیعہ ہو اور شوہر ان دو مذاہب کے ماننے والوں میں سے ہو اس صورت میں ان کی نظر میں عدت کی ضرورت ہے تو عدت ختم ہونے کے بعد شادی کرنا جائز ہے لیکن دونوں صورتوں میں شبہ سے بچنے اور احتیاط کی رعایت کےلئے بہتر یہ ہےکہ شوہر عورت کو طلاق دینے سے انکار کرنے کی صورت میں اس کا طلاق (خواہ حاکم شرع کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو) لے لیں گے۔

مسئلہ (۲۸۴۳)اہل سنت کے نظریہ کے مطابق پھوپھی اور اس کی بھتیجی یا خالہ اور اس کی بھانجی سے شادی کرنا جائزنہیں ہے اس معنی میں کہ اگر دونوں سےایک وقت میں عقد کریں تو دونوں عقد باطل ہیں اور اگر ایک عقد دوسرے عقد کے بعدہوا ہو تو دوسرا عقد باطل ہے۔

لیکن شیعہ امامی کی فقہ میں پھوپھی اور اس کی بھتیجی اور خالہ اور اس کی بھانجی بھتیجی سے شادی کرنےکےبعد پھوپھی سے اور بھانجی سے شادی کرنے کےبعد خالہ سے شادی کرنا مطلقاً جائز ہے اسی طرح بھتیجی سے عقد کرنا پھوپھی سے عقد کرنے کے بعد اور بھانجی سے عقد کرنا اس کی خالہ سے عقد کرنے کےبعد اس شرط پر کہ پھوپھی اور خالہ نےعقد سے پہلے اجازت دی ہو یا پھر عقد کے بعد راضی ہوجائیں تو جائز ہے۔

اس بناء پر اہل سنت کےماننے والے پھوپھی اور اس کی بھتیجی کےساتھ یا خالہ اور اس کی بھانجی کے ساتھ عقد کریں ،پس اگر ان دونوں کا عقد ایک ساتھ ہوچونکہ ان کے مذہب کےلحاظ سے دونوں کاعقد باطل ہےاس لئے شیعہ امامی کےلئے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ شادی کرنا جائز ہے اور اس صورت میں کہ پھوپھی اور خالہ راضی ہوں تو دونوں کے ساتھ عقد کرسکتا ہے اور اگر سنی مرد کا عقد دونوں کے ساتھ ایک وقت میں نہ ہوا ہوتو دوسری عورت کا عقد اس فرض میں ان کے مذہب کے مطابق باطل ہے اور شیعہ مرد اس سے شادی کرسکتا ہے،یہ حکم ان دونوں عورتوں میں سے ہرایک کے لئے جاری ہے اگر وہ شیعہ ہو۔

مسئلہ (۲۸۴۴)شیعہ امامی فقہ کے مطابق یائسہ اور صغیرہ عورت جس کو طلاق دی جاچکی ہو (اگر چہ ان سے ہمبستری کی گئی ہو) ان کے لئے عدت نہیں ہے لیکن اہل سنت کے مذاہب کے مطابق (جو اختلاف صغیرہ کی عدت کی شرائط میں رکھتے ہیں ) ان پر عدت رکھنا واجب ہے اب اگر شوہراہل سنت سے ہو اور عورت اسی مسلک کی یا ئسہ یا صغیرہ ہو( اور صغیرہ کے لئے عدت لازم ہونے کے نظریہ کےمطابق) اس کو طلاق دے دے، تو وہ اپنے مذاہب کے قانون کو ماننے کاپابندہوگا اس کےلئے مطلّقہ کی بہن سے عقد کرنا فاسدہوگا اور ان عورتوں سے نکاح کرنا کہ جن کو عدت کے دوران عورت کے ساتھ جمع کرنا حرام ہے اس بناء پر شیعہ مرد اس مطلّقہ عورت کی بہن سے شادی کرسکتا ہے اگراس سنی مرد نےاس سے عقد کیا ہوا ہے۔

اور شیعہ مرد کے لئے بھی احتیاط واجب یہ ہےکہ اس مطلّقہ عورت کے ساتھ اس کی عدت مکمل ہونے سے پہلے شادی نہ کرے اور وہ عورت بھی اگر شیعہ ہو( یا شیعہ ہوجائے) تو عدت مکمل ہونے تک شادی نہ کرے ۔ اسی طرح احوط یہ ہےکہ عدت کے دنوں میں شوہر سےنان ونفقہ نہ لے اگر چہ شوہر کے مذہب کے مطابق اس کے لئے نفقہ دینا واجب ہو، مگر یہ کہ ایک مخصوص قاعدۂ تقاص کے عنوان سے جب کہ شرائط بھی پائے جاتے ہوں تو نفقہ لے سکتی ہے۔

مسئلہ (۲۸۴۵)شیعہ امامی فقہ کے لحاظ سے طلاق کے صحیح ہونے کےلئے کچھ شرطیں ہیں جو کچھ دوسرے اسلامی مذاہب کے لحاظ سے ان میں کوئی ایک یا کچھ طلاق کے صحیح ہونے کےلئے معتبر نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کوئی غیر شیعہ امامی اپنی عورت کو اس طرح طلاق دےدے کہ جو اس کے مذہب کے لحاظ سے صحیح ہو اور ہمارے مذہب کے لحاظ سےباطل ہوتو شیعہ امامی کے لئے (اس کے مذہب کے احکام کے مطابق اس کو پابند بنانا) جائز ہے کہ اس عورت کی عدت مکمل ہونے کے بعد (اس صورت میں کہ عورت ان لوگوں میں سے جن کے مذہب کےمطابق عدت ہے) اس سے شادی کرے۔ اس طرح اس صورت میں مطلّقہ عورت شیعہ امامی ہوتو وہ دوسرے سےشادی کرسکتی ہے۔

شیعہ امامی فقہ کے مطابق طلاق صحیح ہونے کی( تمام شرطیں یا کچھ شرطیں ) جو دوسرے مذاہب کی نظر میں طلاق صحیح ہونے کے لئے معتبر نہیں ہیں درج ذیل ہیں :

(۱) عورت کوپاکیزگی کے زمانے میں طلاق دینا جب کہ اس دوران اس سے ہم بستری نہ کی گئی ہو۔

(۲) طلاق حتمی ہو اور کسی چیز پرمعلق نہ ہو۔

(۳) طلاق زبانی ہو تحریری نہ ہو۔

(۴) طلاق اختیار سے دیا گیا ہو اور اجباری نہ ہو۔

(۵) طلاق، دوعادل گواہ کی موجودگی میں ہوا ہو۔

مسئلہ (۲۸۴۶)شافعی مذہب کے مطابق، اگر کوئی شخص کسی چیز کو خریدنے کے بعد اسے دیکھے تو وہ خیاررویت سے استفادہ کرسکتا ہے اگر چہ مال مذکورہ اوصاف کے مطابق ہو، اگر چہ شیعہ مذہب کے مطابق اس صورت حال میں خریدارخیار رویت سے استفادہ نہیں کرسکتا ۔ اب اگر شافعی مسلک کا قانون شیعہ امامی مذہب پر اس طرح سے نافذ ہوکہ شافعی مذہب کا خریدار ایسے مقامات میں شیعہ امامی بیچنے والے سے اس خیار سے استفادہ کرتا ہو تو شیعہ امامی خریدار بھی اس طرح معاملہ کرسکتا ہے اور ایک خاص قسم کے قاعدۂ تقاص کے مطابق شافعی مذہب کے بیچنے والے سے اس قانون سے استفادہ کرسکتا ہے۔

مسئلہ (۲۸۴۷)ابوحنیفہ اور شافعی ۔ مغبون(جس کے ساتھ دھوکہ ہوا ہو) کے لئے خیارغبن کے قائل نہیں ہیں اب چونکہ ہمارے مذہب میں یہ خیار ثابت ہے اور بظاہر اس خیار کے ثابت ہونے یا نہ ہونے کی بحث اس موقع کو شامل نہیں کرتی ہے جس میں مغبون شخص مال کے خرید وفروخت اور قیمت سے کسی بھی صورت میں غافل رہاہو، اس صورت میں بظاہر خیارغبن ثابت نہیں ہے اسی طرح وہ موقع بھی شامل نہیں ہے جس میں معاہدے کے فریقین نے بازار کی قیمت کے مطابق نقل و انتقال پر بناء رکھا ہو نہ اس سے زیادہ پر اور مغبون شخص نے دھوکہ دینے والے کے اس دعویٰ پر بھروسا کیاہو کہ قیمت نہیں بڑھی ہے۔کیونکہ بظاہر سبھی کےنزدیک اس جگہ پر بیچنے والے کے دھوکہ دینے کی بناء پر خیار ثابت ہے اسی طرح یہ خیار اس موقع کوبھی شامل کرتا ہے جہاں عرف خاص میں عقلی شرط کی بناء پر حق فسخ کے علاوہ کوئی دوسرا حق جیسے دو چیزوں کی قیمتوں میں فرق کی صورت میں مطالبہ کا حق پایا جاتا ہے اسےشامل نہیں کرتاہے۔

کسی بھی صورت میں جس جگہ شیعہ امامی کی نظر میں خیارغبن ثابت ہے اور اہل سنت کے مذاہب اس کا انکار کرتے ہیں ، شیعہ امامی شخص کےلئے ۔ (قانون خاص تقاص کے عنوان سے) جائز ہے کہ اہل سنت کے پیرو کوخیارغبن کے نہ ہونے کا پابند کرے۔ یہ اس جگہ ہے جہاں پر اہل سنت کے مذہب تمام لوگوں پر من جملہ شیعہ امامی شخص پرنافذ و جاری ہے۔

مسئلہ (۲۸۴۸)حنفی مذہب کے ماننے والے کے نزدیک سلم(یعنی بیچی گئی چیز کو ایک مدت کے بعد خریدار کے حوالے کرنا) کے معاہدے کی صحت کےلئے معاہدہ کے موقع پر مال کے موجود ہونے کی شرط ہےجب کہ شیعہ امامی کےنزدیک یہ شرط معتبر نہیں ہے اب اگر حنفی مذہب، شیعہ امامی مذہب کے ماننے والے پر نافذ ہو اس طرح کہ حنفی مسلک کا خریدار بیچنے والے کو معاہدہ کے باطل کرنے پر مجبور کرے تو شیعہ امامی خریدار کےلئے بھی جائز ہے کہ( مخصوص قاعدۂ تقاص کی بناء پر) حنفی مسلک کے بیچنے والے شخص کو اس معاہدے کو باطل سمجھنے کےلئے مجبور کرے، اور اس صورت میں جب کہ وہ خریدار شیعہ امامی مذہب کو قبول کرے اس پر بھی یہی حکم جاری ہوگا۔

مسئلہ (۲۸۴۹)اہل سنت کےنظریہ کے مطابق میراث کے حصوں میں زائد آنے والی رقم کو میت کے عصبہ (جیسے اس کے بھائی) کو دیا جائے گا لیکن شیعہ امامی کا نظریہ اس کے برخلاف ہے مثلا ً اگر کوئی شخص مرجائے اور صرف ایک بیٹی اوربھائی ہوں تو شیعہ امامی فقہ کی نظر میں میراث کاآدھا حصہ بیٹی کو میراث کے حصے کےعنوان سے اور دوسرے آدھے حصے کوبھی بیٹی کو دے دیا جائے گا۔اور میت کے بھائی کو کچھ نہیں ملے گا لیکن اہل سنت کےنظریہ کے مطابق اس صورت میں میراث میں سے آدھا حصہ بھائی کو ملے گا اس لئے کہ وہ میت کے عصبہ میں شمار ہوتاہے اب اگر اہل سنت کے مذہب کا قانون شیعہ امامی مذہب کےماننے والے وارث پرنافذ ہو اور میراث کے بچے ہوئےحصے سےاس کو کچھ نہ ملے تو اگر میت کاعصبہ مذہب شیعہ امامی فرقے کا ہوتو ایک خاص قسم کے قانون تقاص کےعنوان سے اہل سنت وارث کے میراث کی اضافی رقم سے اپنا حصہ لے سکتاہے۔

مسئلہ (۲۸۵۰)اہل سنت کے نظریہ کے مطابق ایک بیوی شوہر کی تمام جائیداد سے خواہ منقولہ ہو اور خواہ غیر منقولہ جیسے زمین وغیرہ میں میراث پاتی ہے،اب چونکہ شیعہ امامی نظریہ کے لحاظ سے ایک بیو ی خود زمین یا اس کی قیمت سےمیراث نہیں پاتی صرف عمارت اور درختوں کی قیمت سے میراث لیتی ہے ،نا کہ خود عمارت اور درخت سےمیراث پاتی ہے اس بناء پر اگر اہل سنت کا قانون شیعہ پر اس طرح سے نافذہو کہ سنی مذہب کی بیوی،زمین عمارت اور درختوں سے میراث پاتی ہے جب کہ دوسرے ورثہ شیعہ امامی مذہب سے ہوں تو شیعہ امامی بیوی بھی زمین، عمارت اور درختوں سے میراث لے سکتی ہے۔جہاں دوسرے ورثہ اہل سنت ہوں ۔
(۱۸) پوسٹ مارٹم کے احکام ← → (۱۶) سرقفلی (پگڑی)
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français