مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع

جن مقامات میں قضا اور کفارہ دونوں واجب ہے ← → وہ مقامات جن میں روزے کی قضا واجب ہے

قضا روزے کے دوسرے احکام

مسئلہ 2036: جس شخص پر ماہ رمضان کے چند روزوں کی قضا واجب ہے اور ان کی تعداد نہیں جانتا یا بھول گیا ہے مثلاً نہیں جانتا تین یا چار یا پانچ روزہ تھا چنانچہ كم از كم مقدار روزہ رکھ لے کافی ہے مشکوک مقدار کا بجالانا ضروری نہیں ہے لیکن احتیاط مستحب ہے کہ اتنا روزہ رکھے کہ یقین ہو جائے کہ تمام روزے کو بجالایا ہے اس بنا پر مذکورہ مثال میں بہتر ہے کہ پانچ دن قضا بجالائے۔

مسئلہ 2037: اگر کسی عذر کی وجہ سے چند دن روزہ نہ رکھے اور بعد میں شک کرے کہ اس کا عذر کس وقت برطرف ہوا تھا تو وہ زیادہ مقدار جس کا احتمال دے رہا ہو کہ روزہ نہ رکھا ہو قضا کرنا لازم نہیں ہے مثلاً جو شخص ماہ رمضان سے پہلے سفر کرے اور یاد نہ ہو کہ ماہ رمضان کی پانچویں تاریخ کو عصر میں واپس آیا تھا یا چھٹی تاریخ کو عصر میں واپس آیا تھا یا یہ کہ ماہ رمضان کے آخر میں سفر کیا ہو اور رمضان بعد واپس آیا ہو اور یاد نہ ہو کہ ماہ رمضان کی پچیس تاریخ کی شب میں سفر کیا تھا یا چھبیس تاریخ کی شب میں سفر کیا تھا دونوں صورتوں میں كم از كم مقدار میں یعنی پانچ دن (دوسری مثال میں اگر مہینہ تیس دن کا ہو) کے قضا کرنے پر اکتفا کر سکتا ہے گرچہ احتیاط مستحب ہے کہ زیادہ مقدار یعنی چھ دن کی قضا بجالائے۔

مسئلہ 2038: اگر چند سال ماہ رمضان کے قضا روزے ہوں تو ان کی قضا میں ترتیب کی رعایت لازم نہیں ہے اس بنا پر جس کی بھی پہلے قضا بجالائے حرج نہیں ہے لیکن آخری ماہ رمضان کی قضا کا وقت کم ہو مثلاً آخری ماہ رمضان سے پانچ دن قضا ہو اور پانچ ہی دن ماہ رمضان آنے میں باقی ہوں تو احتیاط مستحب ہے کہ پہلے آخری ماہ رمضان کی قضا بجالائے۔

مسئلہ 2039: اگر چند سال کے ماہ رمضان کے روزے کی قضا انسان پر واجب ہو اور نیت میں معین نہ کرے جو قضا رکھ رہا ہے کس ماہ رمضان کی قضا ہے تو آخر ی سال کی قضا شمار نہیں ہوگی اس لیے کفارہٴ تاخیر ساقط نہیں ہوگا۔

مسئلہ 2040: قضا روزے میں موالات کی رعایت لازم نہیں ہے اس بنا پر اگر کوئی شخص ایک ہفتہ پے در پے ماہ رمضان کے روزے خواہ عذر رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو بجانہ لایا ہو تو سات دن پے در پے قضا بجالانا لازم نہیں ہے۔



مسئلہ 2041: وہ روزے دار جو ماہ رمضان کے اپنے قضا روزے بجالارہا ہو تو اذان ظہر سے پہلے روزے کو باطل کر سکتا ہے لیکن اگر قضا کا وقت تنگ ہو جیسے کہ انسان گذشتہ ماہ رمضان سے ایک ہفتے کے قضا روزے اس پر ہوں اور آنے والے رمضان میں صرف سات دن باقی رہ گئے ہوں تو اس صورت میں احتیاط مستحب یہ ہے کہ اپنے روزے کو باطل نہ کرے [189] لیکن اذان ظہر کے بعد ماہ رمضان کے قضا روزے کا جان بوجھ کر توڑنا جائز نہیں ہے کفارہ بھی ہے۔

مسئلہ 2042: اگر کوئی شخص کسی میت کے قضا روزے رکھے تو احتیاط مستحب ہے کہ اذان ظہر کے بعد روزے کو باطل نہ کرے ۔ [190]

مسئلہ 2043: جو شخص اپنے ماہ رمضان کے قضا روزے کو رکھے ہوئے ہے اگر اذان ظہر کے بعد جان بوجھ کر کھائے یا پیے یا جماع یا استمنا سے اپنے روزے کو باطل کرے واجب ہے کہ دس فقیر کو سیر کرے یا ان میں سے ہر ایک کو ایک مُدطعام دے اور اگر ایسا نہیں کر سکتا تو تین دن روزہ رکھے، چنانچہ مذکورہ مبطلات کے ذریعے قضا روزے کو ظہر کے بعد مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے باطل کرے تو اگر جاہل قاصر ہو تو کفارہ واجب نہیں ہے لیکن اگر جاہل مقصر ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اس مقام میں بھی جب مبطل کے انجام دینے میں متردّد نہ رہا ہو کفارہ دینا لازم ہے۔

[189] قابلِ ذکر ہے کہ جو کچھ ذکر ہوا اس صورت میں ہے کہ خاص اس دن کا روزہ رکھنا نذر وغیرہ کے ذریعے اس پر واجب نہ ہوا ہو ور نہ روزے کا توڑنا ظہر سے پہلے بھی جائز نہیں ہے۔

[190] البتہ یہ اس صورت میں ہے کہ اس دن کے روزے کو تمام کرنا اجارہ یا اس کے مانند شے میں شرط ضمن عقد کے سبب معین نہ ہو ورنہ روزے کا توڑنا بالکل جائز نہیں ہے۔
جن مقامات میں قضا اور کفارہ دونوں واجب ہے ← → وہ مقامات جن میں روزے کی قضا واجب ہے
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français