مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع

غسل واجب غسل ← → تیمّم جبیرہ کا حکم

قرآن او راسما ئے متبرکہ

مسئلہ 394: جو شخص باوضو نہ ہو اس کا قرآن مجید کے الفاظ کو مس کرنا یعنی بدن کے کسی جگہ جیسے ہاتھ، پیر، چہرہ، ہونٹ، سینہ، زبان یا دانت وغیرہ کو قرآن کے خط تک پہونچانا حرام ہے، اور بغیر وضو کے قرآن کو مس کرنے کے حرام ہونے میں آیت ، کلمہ اور حرف کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔

مسئلہ 395: قرآن اور غیر قرآن کے مشترک الفاظ اور کلمات کا معیار یہ ہے کہ مجموعی طور پر قرآن کا ایک ساتھ لکھنا عرف میں قرآن شمار کیا جائے اور اس میں لکھنے والے كے قصد کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے البتہ عرف کی نگاہ میں قرآن تھا اور اب اس کے اجزا ایک دوسرے سے جدا ہونے یا ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی وجہ سے عرف میں قرآن نہ ہو احتیاط لازم ہے کہ اس کے باوجود بھی انسان بغیر وضو، بدن کو اس سے مس نہ کرے۔

مسئلہ 396: اگر قرآن کے اوپر شیشہ یا پتلی پلاسٹک یا سنہرہ ورق لگا ہو اور قرآن کے الفاظ اس کے نیچے سے نمایاں ہوں تو اس کو بغیر وضو کے مس کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

مسئلہ 397: قرآن جس چیز پر بھی لکھا ہو اس کے حکم میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا ہے اس بنا پر اگر کاغذ ، لوح، کپڑا، لباس ، زمین ، دیوار وغیرہ یہاں تک احتیاط واجب کی بنا پر درہم و دینار اور پیسے اور سکوں پر قرآن لکھا ہو تو بغیر وضو کے ہاتھ لگانا اشکال رکھتا ہے، اور خط کی قسمیں جو ابھی مرسوم نہیں ہے جیسے خط کوفی اور اسی طرح كتابت کی دوسری قسمیں جیسے قلم سے لکھا ہو یا چھپا ہو یا حکّاکی کیا ہو ، کٹا ہوا یا ابھرا ہوا لکھا ہو یا گل دوزی وغیرہ كیا ہوا ہو اِس حکم میں کوئی فرق نہیں ہے ۔

مسئلہ 398: وضو کے بغیر قرآن کے خط کے علاوہ مس کرنا حرام نہیں ہے لیکن مکروہ ہے جیسے سطروں کے درمیان ،ورق، اس کی جلد اور غلاف کو مس کرنا اسی طرح قرآن کو گردن یا لباس میں لٹکانا اور اس کو اٹھانا جب کہ قرآن کے خطو ط براہ راست بدن سے مس نہ ہوتے ہوں وضو کے بغیر مکروہ ہے۔

مسئلہ 399: قرآن کے خط کو مس کرنے کا حرام ہونا مکلف افراد سے مخصوص ہے اس بنا پر قرآن کے خط کو بچہ اور دیوانہ سے مس ہونے سے روکنا واجب نہیں ہے لیکن اگر اس کا مس کرنا قرآن کی بے حرمتی کا سبب بنے جیسے قرآن پر بیٹھنا یا پھاڑنا یا اس کا نجس کرنا تو روکنا ضروری ہے اور قرآن سکھانے یا اس کے مانند دوسرے امور کےلیے بچوں کو قرآن دینے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ جانتا ہو کہ بچہ بغیر وضو کے اس کو مس کرے گا، بلکہ بچہ کے ذریعہ قرآن کے خط کو مس کرنے میں سبب بننا جیسے بچہ کے ہاتھ کو پکڑ کر قرآن کے خط پر قرار دینے سے اگر بے حرمتی نہ ہو تو جائز ہے۔

مسئلہ 400: قرآن کے خط اور ورق کو نجس کرنا یہاں تک کہ احتیاط واجب کی بنا پر اگر توہین اور بے حرمتی کا سبب نہ ہو حرام ہے اور اگر نجس ہو جائے تو احتیاط واجب کی بنا پر بے حرمتی نہ بھی ہو فوراً پاک کرے اور اگر قرآن کی جلد نجس ہو جائے اگر قرآن کی بے احترامی ہو تو اس کو دھونا ضروری ہے۔

مسئلہ 401: قرآن کو عین نجس پر جس میں سرایت کرنے والی تری موجود نہ ہو رکھنا جیسے خون یا وہ چمڑا جو مردار کی کھال سے بنا ہو اور خشک ہو اگر بے احترامی ہو تو حرام ہے اور اس پر سے قرآن کو اٹھانا واجب ہے۔

مسئلہ 402: کافر کو قرآن بیچنا احتیاط واجب کی بنا پر صحیح نہیں ہے اور کافر کو قرآن دینا اگر قرآن کی توہین شمار ہو یا توہین کا كافی امکان پایا جاتا ہو تو حرام ہے، اگر کافر کی ہدایت کے لیے اس کو قرآن دیں اور بے حرمتی اور توہین بھی نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔

مسئلہ 403: نجس سیاہی سے قرآن کو لکھنا اگرچہ ایک حرف ہو قرآن کو نجس کرنے کا حکم رکھتا ہے یعنی اگر بے احترامی اور توہین کا باعث ہو تو حرام ہے اور اگر لکھ دیا گیا ہو تو اسے پانی یا کسی اور چیز سے محو کرے اس طرح سے کہ نجس سیاہی كی عین نجاست ختم ہو جائے۔

مسئلہ 404: اگر غلطی سے انسان کے ہاتھ سے قرآن زمین پر گر جائے تو کفارہ نہیں ہے لیکن قرآن کو فوراً اٹھا کر احترام کرے۔

مسئلہ 405: جو شخص با وضو نہ ہو احتیاط لازم کی بنا پر خداوند متعال کے نام کو خواہ جس زبان میں لکھا ہوا ہو (اللہ، خدا، God) بدن سے مس کرنا جائز نہیں ہے اور اسی طرح خدا کی مخصوص صفات کو مس کرنا خواہ جس بھی زبان میں لکھے ہوں تو صفات الہی کے مس کرنے کے بارے میں مسئلہ كی وضاحت یوں ہے:

جو صفات خدا کے لیے استعمال ہوتے ہیں دو قسم کے ہیں:

پہلی قسم: بعض صفات غیر خدا کے لیے استعمال نہیں ہوتے جیسے الرحمٰن اور بعض صفات ایسی خصوصیت رکھتے ہیں کہ صرف خداوند سبحان ہی وہ خصوصیت رکھتا ہے جیسے مقلب القلوب ان مقامات میں احتیاط واجب کی بنا پر بغیر وضو کے مس کرنا جائز نہیں ہے۔

دوسری قسم: بعض ایسے صفات جن کا معنی یہ ہو کہ خدا کے علاوہ بھی وہ خصوصیت رکھ سکتے ہوں اور غیر خدا کے لیے بھی استعمال ہوتے ہوں یہ صفات بھی دو قسم کے ہیں:

الف: وہ صفات جو غالباً خداوند متعال کے لیے استعمال ہوتے ہیں اگر بغیر علامت یا وضاحت کے بیان ہوں تو ان سے مراد خداوند متعال ہی ہے جیسے رب، خالق یہ صفات اگر بغیر نشانی کے یا کلام یا عبارت میں کوئی نشانی ہو جس سے مشخص ہو کہ اس سے مراد خداوند متعال ہے توا حتیاط واجب کی بنا پر بغیر وضو کے اس کو مس کرنا جائز نہیں ہے، ان صفات کے علاوہ اس طرح کی صفات کو وضو کے بغیر مس کرنا جائز ہے۔

ب: بعض ایسی صفات جو خداوند اور غیر خداوند دونوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں اگر کسی وضاحت یا علامت کے بغیر ذکر ہو تو معلوم نہیں ہوتا کہ اس سے مراد خداوند متعال ہے یا غیر خدا جیسے رحیم، عظیم اگر کوئی ایسی نشانی ہو جو سمجھائے کہ اس سے مراد خدا ہے تو احتیاط واجب کی بنا پر ایسے صفات کو مس کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر کوئی ایسی نشانی نہ ہو چاہے بغیر نشانی کے ہو یا نشانی ہو جو سمجھائے کہ اس سے غیر خدا مراد ہے اس کو مس کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، احتیاط مستحب کی بنا پر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ائمہ علیہم السلام اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ناموں کو بھی بغیر وضو مس نہ کرے ۔

مسئلہ 406: تعویذ یا جس میں بھی خداوند سبحان کا نام ہو ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہےلیکن احتیاط واجب کی بنا پر اس کو کپڑے کے اوپر سے استفادہ کرے تاکہ بغیر وضو اسم جلالہ انسان کے بدن سے مس نہ ہو یا یہ کہ خداوند متعال کا نام کسی جلد یا غلاف کے اندر ہو چاہے نازک ہی ہواور بے وضو شخص کے بدن سے براہ راست مس ہونے سے مانع ہو۔

مسئلہ 407: اگر قرآن کو فارسی یا دوسری زبان میں ترجمہ کریں تو خدا کے نام اور اس کےمخصوص صفات کے علاوہ بغیر وضو کے مس کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

مسئلہ 408: ’’ا…‘ جو اللہ کی جگہ لکھا جاتا ہے اور وہ ضمیر جو "اللہ" کی طرف پلٹتی ہے جیسے ہ باسمہ تعالیٰ میں یا ہو’’ ھُوَالباقی‘‘ میں بغیر وضو کے مس کرنا جائز ہے۔

مسئلہ 409: لفظ جلالہ کو بغیر وضو کے مس کرنا احتیاط واجب کی بنا پر جائز نہیں ہے اگر چہ ایک یا چند جز والے نام کا ایک جز ہو جیسے عبداللہ ، حبیب اللہ۔

مسئلہ 410: اگر قرآن کا ورق یا وہ چیز جس کا احترام ضروری ہے جیسے ایسا کاغذ جس پر خداوند متعال یا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یا معصومین علیہم السلام میں سے کسی کا نام یا ان لوگوں کی کنیت یا القاب لکھا ہو بیت الخلا میں گر جائے تو اس کا باہر نکالنا اور پاک کرنا فوراً واجب ہے اگرچہ پیسہ خرچ کرنا پڑے اور اگر اس کا باہر نکالنا ممکن نہ ہو تو اس بیت الخلا میں نہ جائے یہاں تک کہ یقین ہو جائے کہ وہ ورق بوسیدہ ہو گیا ہے، لیکن دوسرے کو بتانا ضروری نہیں ہے اسی طرح اگر امام حسین علیہ السلام کی تربت بیت الخلا میں گرجائے اور اس کا باہر نکالنا ممکن نہ ہو تو جب تک یقین پیدا نہ کرے کہ بالكل ختم ہوگئی ہے اس بیت الخلا میں نہ جائے۔

مسئلہ 411: امام حسین علیہ السلام کی تربت جو تبرک کے قصد سے قبر مبارک سے اٹھائی گئی ہے اگر عرف میں توہین اور بے حرمتی شمار ہو تو اس سے نجاست کو برطرف کرنا واجب ہے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور دوسرے ائمہ اطہار علیہم السلام كی قبروں کی خاک جو تبرک کے طور پر اٹھائی گئی ہو اس کے نجس اور پاک کا حکم امام حسین علیہ السلام کی تربت کی طرح ہے اورحضرت سید الشہدا علیہ السلام کی تربت کے بارے میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا ہے کہ وہ قبر سے لی گئی ہو یا باہر سے لاکر تبرک اور شفا کے قصد سے قبر مطہر پر رکھی گئی ہو۔

مسئلہ 412: ان جگہوں کے نام کی بے احترامی اور توہین جو اہل بیت علیہم السلام کے نام سے ہوں جیسے خیابان امام رضاؑ، میدان امام حسین علیہ السلام، حسینیہ حضرت زہرا علیہا السلام، اور مسجد موسیٰ ابن جعفر علیہ السلام وغیرہ مثلا ًاس کو پیر کے نیچے قرار دے یا کوڑے کےڈبے میں ڈالنا جائز نہیں ہے۔

مسئلہ 413: متبرک ناموں کا احترام کرنا ضروری ہے اور اس کو ایسی جگہوں پر ڈالنا جہاں بے احترامی اور توہین ہو جائز نہیں ہے اس بنا پر سب سے بہترین راستہ یہ ہے کہ کوئی برتن یا جگہ کو اس طرح کے کلمات اور اسما کو رکھنے کے لیے معین کرے اور کچھ دنوں کے بعد اس کو بیابان یا پاک جگہ کے کسی گوشہ میں دفن کر دے یا دریا یاجاری پانی میں ڈال دے اسی طرح پاک کیمیکل کے ذریعہ لکھے ہوئے اسمائے متبرکہ کو محو کرنا جائز ہے لیکن قرآن کی آیتوں کو یا جو ورق ورق ہو گیا ہو یا خدا و معصومین علیہم السلام کے اسمائے متبرکہ کو مجموعی طور پر جلانا جائز نہیں ہے۔

غسل واجب غسل ← → تیمّم جبیرہ کا حکم
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français