مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

بسم الله الرحمن الرحيم
آیت اللہ سیستانی کی رائےکے مطابق ہندوستان میں بدھ (10-4-2024) ماہ شوال کی پہلی اور عید سعید فطر ہے۔

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل جامع

پہلی اور دوسری رکعت کی قرائت کے احکام ← → 2۔ تکبیرۃ الاحرام

3۔ قیام

مسئلہ 1144: قیام نماز کے چار حصوں میں اگر ممکن ہو تو واجب ہے:

ا۔ تکبیرۃ الاحرام کہتے وقت قیام

2
۔ رکوع سے پہلے قیام کہ اسے قیام متصل بہ رکوع کہا جا تا ہے

3
۔ قرائت کے وقت قیام (حمد سورہ اور تسبیحات اربعہ پڑھتے وقت)

4
۔ رکوع کے بعد قیام

پہلے اور دوسرے مقام میں قیام واجب ہونے کے علاوہ رکن بھی ہے لیکن تیسرے اور چوتھے مقام میں قیام گرچہ واجب ہے لیکن نماز کا رکن نہیں ہے اور اگر کوئی بھول كر ترک کر دے تو اس کی نمازصحیح ہے۔

مسئلہ 1145: قیام متصل بہ رکوع سے مراد یہ ہے کہ انسان قیام کی حالت سے رکوع میں جائے اس بنا پر اگر نماز گزار رکوع کو بھول جائے اور حمد او رسورہ کے بعد بیٹھ جائے اور یاد آئے کہ رکوع نہیں کیا ہے تو کھڑا ہو جائے اور پھر کھڑے ہونے کی حالت سے رکوع میں جائے اور کھڑے ہوئے بغیر جھکے ہوئے ہی رکوع میں چلاجائے کیونکہ قیام متصل بہ رکوع بجانہیں لایا ہے اس لیے کافی نہیں ہے قابلِ ذکر ہے کہ قیام متصل بہ رکوع، رکوع سے پہلے ٹھہرنے کے معنی میں نہیں ہے اور مزید وضاحت رکوع کی فصل میں آئے گی۔

مسئلہ 1146: جس وقت واجب قیام (چاروں قسم کے قیام جو مسئلہ 1144 میں بیان ہوا) کے لیے کھڑا ہو لازم ہے کہ راستہ نہ چلے جابجانہ ہو، سیدھا کھڑا ہو اور کسی طرف خم نہ ہو اور اسی طرح احتیاط واجب كی بنا پر کسی جگہ پر تکیہ نہ دے، اور اسی طرح احتیاط واجب كی بنا پر بدن کو حرکت نہ دے، لیکن اگر ان چیزوں کو مجبوری یا اضطرار کی حالت میں انجام دے تو حرج نہیں ہے۔

مسئلہ 1147: احتیاط واجب کی بنا پر نمازگزار قیام کے وقت اپنے دونوں پیر کو زمین پر رکھے، مثلاً سورہٴ حمد پڑھتے وقت احتیاط واجب کی بنا پر اپنے پیر کو گرچہ تھوڑی ہی دیر کے لیےنہیں اٹھا سکتا، لیکن جس وقت کچھ قرائت نہ کر رہا ہو اور خاموش ہو تو اس جہت سے حرج نہیں ہے ، اور اِسی طرح ضروری نہیں ہے بدن کے بوجھ کو دونوں پیر پر ڈالے بلکہ ایک پیر پر بھی ہو تو حرج نہیں ہے۔

مسئلہ 1148: جو شخص صحیح کھڑا ہوسکتا ہے اگر پیروں کو بہت کھولا ہوا رکھے اس طرح سے کہ کھڑا ہونا اور قیام صادق نہ آئے تو اس کی نماز باطل ہے بلکہ احتیاط لازم کی بنا پر پیروں کو زیادہ کھلا نہ رکھے گرچہ کھڑا ہونا اور قیام صدق کر رہا ہو۔

مسئلہ 1149: جس وقت واجب قیام وہ قیام جو رکن ہے۔ کے لیے کھڑا ہو اگر بھول كر بدن کو حرکت دے یا تھوڑا چلے یا جابجا ہو اس طرح سے کہ نماز کی شکل خراب نہ ہو اور قبلہ سے بھی نہ پھرے یا کسی طرف جھکے اس طرح سے کہ قیام کے صادق آنے اور قبلہ رُخ ہونے سے ساز گاری رکھتا ہو یا کسی جگہ پر تکیہ دے تو حرج نہیں ہے۔

مسئلہ 1150: جب تک انسان کھڑے ہوکر نماز پڑھ سکتا ہے بیٹھ نہیں سکتا مثلاً جو شخص کھڑے ہوتے وقت اس کا بدن حرکت کرتا ہے یا مجبور ہے کسی چیز پر تکیہ کرے یا اپنے پیروں کو معمول سے زیادہ کھلارکھے یا اپنے بدن کو تھوڑا ٹیڑھا کرے اس طرح سے کہ ان مقامات میں قیام صدق کرتا ہو تو جس طرح بھی ہو سکے کھڑے ہو کر نماز پڑھے گا لیکن اگر کسی بھی حالت میں کھڑا نہ ہو سکتا ہو تو سیدھے بیٹھ کر نماز پڑھے اس بنا پر کھڑے ہوکر نماز پڑھنا اضطراری قیام کے ساتھ ( مذکورہ مقامات کی طرح ) بیٹھ کر نماز پڑھنے پر مقدم ہے۔

مسئلہ 1151: جب تک انسان بیٹھ سکتا ہے لیٹ کر نماز نہیں پڑھ سکتا اور اگر سیدھا نہ بیٹھ سکتا ہو تو جس طرح بھی ممکن ہو بیٹھے اور اگر کسی بھی حال میں بیٹھ نہ سکتا ہو تو اس طریقے سے جو قبلہ کے احکام میں بیان کیا گیا پہلو پر لیٹے اس طرح سے کہ اس کے بدن کے سامنے کا حصہ قبلہ رُخ ہو اور جب تک دائیں پہلو پر لیٹنا ممکن ہے احتیاط لازم کی بنا پر بائیں پہلو پر نہ لیٹے اور اگر یہ دونوں ممکن نہ ہو تو پیٹھ کے بل اس طرح لیٹے کہ پیر کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔

مسئلہ 1152: جو شخص کھڑا ہو سکتا ہے اگر خوف رکھتا ہو کہ کھڑے ہونے کی وجہ سے۔ (گرچہ دیوار یا عصا یا اس طرح کی چیز پر تکیہ دے کر ) بیمار ہو جائے گا یا قابلِ توجہ ضرر پہونچے گا تو بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے چنانچہ اگر بیٹھنے سے بھی خوف رکھتا ہو لیٹ کر نماز پڑھ سکتا ہے اور وقت گزرنے سے پہلے عذر کے برطرف ہو جانے کا حکم مسئلہ 1157 میں ذكر ہوگا۔

مسئلہ 1153: اگر نماز گزار نماز کے دوران کھڑے ہونے سے ناتوان ہو جائے اگر آخر وقت تک اپنی ناتوانی کے برطرف ہونے سے نا امید ہو تو بیٹھ جائے اور بیٹھ کر نماز کو جاری رکھے اور اگر نماز میں بیٹھنے سے بھی ناتوان ہو جائے تو لیٹ جائے اور مسئلہ 920 اور 1151 کے مطابق قبلہ کی جہت کی رعایت کرتے ہوئے نماز کو بجالائے لیکن جب تک اس کا بدن مكمل طور پر ٹھہر نہ جائے واجب ذکر کچھ بھی نہ پڑھے اور حرکت کی حالت میں مستحبی ذکر پڑھنے کا حکم مسئلہ 1201 میں آئے گا۔

لیکن اگر کسی شخص کو معلوم ہے یا اطمینان رکھتا ہو کہ اس کی ناتوانی آخر وقت تک باقی نہیں رہے گی اور وقت ختم ہونے سے پہلے نماز کو مثلاً کھڑاہو کر پڑھ سکتا ہے تو اس صورت میں نماز کو توڑ دے اور بعد میں توانائی کی حالت میں کھڑا ہو کر نماز پڑھے۔

اور اسی طرح اگر نا امید نہ ہو اور معقول احتمال دے رہا ہو کہ اس کی ناتوانی آخر وقت تک بر طرف ہو جائے گی تو رجا کی نیت سے بیان شدہ کیفیت کے مطابق نماز کو تمام کر سکتا ہے ، چنانچہ اس کا عذر آخر وقت تک باقی رہ گیا تو جو نماز پڑھی ہے کافی ہے اور اگر عذر بر طرف ہو گیا تو اسے دوبارہ پڑھے گا۔

مسئلہ 1154: جو شخص اپنے وظیفے کے مطابق بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو اگر حمد و سورہ پڑھنے کے بعد کھڑا ہو سکتا ہو اور رکوع کھڑا ہو کر بجالاسکتا ہو تو کھڑا ہو جائے اور کھڑے ہونے کی حالت سے رکوع میں جائے اور اگر ایسا نہ کر سکتا ہو تو رکوع بھی بیٹھ کر بجالائے۔

مسئلہ 1155: جو شخص اپنے وظیفے کے مطابق بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو اگر نماز کے دوران کھڑا ہو سکتا ہو تو جتنی مقدار کھڑا ہو سکتا ہے کھڑا ہو کر نماز پڑھے لیکن جب تک اس کا بدن مكمل طور پر ٹھہر نہ جائے واجب ذکر میں سے کچھ نہ پڑھے لیکن اگر جانتا ہو کہ مختصر کھڑا ہو سکتا ہے تو اس کو قیام متصل بہ رکوع سے مخصوص کرے۔

مسئلہ 1156: جو شخص اپنے وظیفے کے مطابق لیٹ کر نماز پڑھ رہا ہو اگر نماز کے دوران بیٹھ سکتا ہو تو جتنی مقدار بیٹھ سکتا ہے بیٹھ کر نماز پڑھے اور اگر کھڑا بھی ہو سکتا ہو تو جس مقدار میں ممکن ہے کھڑا ہو، لیکن جب تک مکمل طور پر اس کا بدن ٹھہر نہ جائے واجب ذکر بالکل نہ پڑھے لیکن اگر جانتا ہو کہ مختصر مقدار میں کھڑا ہو سکتا ہے تو اسے قیام متصل بہ رکوع سے مخصوص کرے۔

مسئلہ 1157: اگر انسان اس بات سے نا امید نہ ہو کہ آخر وقت میں کھڑا ہو کر نماز پڑھ سکے گا چنانچہ اول وقت نماز پڑھے اور آخر وقت میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے پر قادر ہو جائے تو نماز دوبارہ پڑھے لیکن اگر ناامید رہا ہو کہ آخر وقت کھڑے ہوکر نماز پڑھ سکے گا اور اول وقت نماز پڑھ لی ہو اور پھر کھڑے ہونے پر قادر ہو گیا ہو تو نماز کا دوبارہ پڑھنا ضروری نہیں ہے۔

قیام کے مستحبات

مسئلہ 1158: فقہا ئے کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم نے بعض امور قیام کی حالت میں مستحب شمار كیے ہیں من جملہ یہ کہ قیام کی حالت میں بدن کو سیدھا رکھے[121]اور شانوں کو گرادے ، ہاتھوں کو دونوں رانوں پر زانوؤں کے مقابل میں قرار دے ، خشوع اور خضوع کے ساتھ رہے، پیروں کو آگے پیچھے نہ رکھے اور اگر مرد ہے تو پیروں کے درمیان میں تین انگلی سے ایک بالشت تک کا فاصلہ دے اور اگر عورت ہے تو دونوں پیر کو ملا کر رکھے۔

[121] یہ حکم اس مقام میں ہے جہاں پر قیام میں لازم مقدار سیدھا کھڑے ہونے کی مسئلہ 1146 کے مطابق رعایت كی گئی جیسے وہ شخص جو سیدھا کھڑا ہو اور اس کا بدن کسی طرف جھکا نہ ہو اس حال میں مستحب ہے کہ ریڑھ کی ہڈی اور گردن کو بھی بالکل سیدھا رکھے۔
پہلی اور دوسری رکعت کی قرائت کے احکام ← → 2۔ تکبیرۃ الاحرام
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français